بچوں کو اغوا کر کے قتل کرنے والی ماں بیٹیوں کی ہولناک داستان - Pakiatani Media News

Breaking

Thursday, 5 October 2023

بچوں کو اغوا کر کے قتل کرنے والی ماں بیٹیوں کی ہولناک داستان

بھارت کی ریاست مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والی ماں بیٹیوں نے ظلم کی وہ داستان رقم کی ہے جو اکثر لوگوں کے دل دہلا دیتی ہے۔

انجنا بائی، ان کی بیٹی سیما اور انھی کی دوسری شادی شدہ بیٹی رینوکا شندے نے 90 کی دہائی کے اوائل میں بربریت کی انتہا کی۔ سیریئل کلر بہنوں اور ان کی ماں نے ایک دو نہیں درجنوں بچوں کو اغوا کیا اور ان میں سے کئی کو قتل کیا، وہ پہلے ان بچوں کو چوری کرنے اور بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرتی تھیں تاکہ پکڑ میں نہ آسکیں پھر انھیں بے دردی سے قتل کردیتی تھیں۔

ان عورتوں کو چھ بچوں کے قتل میں سزائے موت تو ہوئی مگر کبھی انھیں پھانسی نہ لگ سکی۔ تینوں سفاک خواتین نے تقریباً 42 بچوں کو اغوا کیا اور زیادہ تر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اغوا اور قتل کا یہ سلسلہ چھ برس تک جاری رہا۔ تفتیش کار کئی سالوں کی محنت کے بعد ان گھتی کو سلجھا پائے۔

غلط حکومتی طریقہ کار کے باعث جرم میں ملوث سیریل کلرزکی سزائے موت پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔یہ تین خواتین مہاراشٹرا میں سب سے سفاک سیریل کلر بن گئی تھیں۔ وہ بچوں کو اغوا کرتی تھیں اور چوری کرنے کے لیے بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔

عدالت میں ان کے خلاف 13 بچوں کا اغوا ثابت ہوا جن میں سے کم از کم چھ کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ یہ مہاراشٹرا کی تاریخ کا سب سے طویل عدالتی مقدمہ ہے۔ ان تینوں کے خلاف فیصلہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنایا گیا۔

حتمی فیصلے کے بعد مجرموں کی پھانسی میں بھی تاخیر ہوئی، جس کے بعد سپریم کورٹ کو سزائے موت کو منسوخ کرنا پڑا کیونکہ صدر نے رحم کی درخواست مسترد کرنے میں پانچ سال تک تاخیر کی۔

1990 سے 1996 کے درمیان لاپتہ کیے گئے ان بچوں کا تعلق مغربی مہاراشٹرا، پُونے، ناسک اور ممبئی کے قریب کولہاپور جیسے شہروں سے تھا۔ تینوں عورتوں نے مزدوری کے علاوہ مقامی سطح پر چوری چکاری کو اپنا ذریعہ روزگار بنا ہوا تھا۔

سیما، رینوکا اور ان کی ماں انجنا بائی بھیڑ والی جگہوں، بازاروں اور میلوں میں خواتین کے پرس، زیورات اور مردوں کے بٹوے چوری کرتی تھیں۔ ایک چوری کے دوران رینوکا اپنے بیٹے کی وجہ سے بچ گئی جس کے بعد انھوں نے بچوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد انھوں نے اسٹریٹ چلڈرن، بھکاریوں کے بچے اور دیگر بے سہارا بچوں کو اغوا کرنا شروع کیا۔ مندروں کے تہواروں اور ایسی جگہوں پر جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، وہ بچوں کو چوری کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ بچے والی عورت پر کوئی یہ شک نہیں کرتا اس لیے انجنا بائی اور ان کی دو بیٹیوں نے چوری کو اپنا کاروبار بنا لیا۔

انجنا بائی ایک چوری کے دوران پکڑی گئی اور اس کے ساتھ اغوا کیا گیا ڈیڑھ سال کا بچہ بھی تھا۔ بھیڑ کی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے بچے کو دور زمین پر پھینک دیا۔ وہاں سے بچ نکلنے کے بعد انجنا بائی نے بس اسٹاپ پر بچے کا سر زور سے بجلی کے کھمبے سے دے مارا جس سے اس کی موت ہوگئی۔

چوری میں استعمال ہونے والے بچوں کو معمول کے مطابق اس طرح بے رحمی سے مقصد پورا ہو جانے کے بعد مار دیا جاتا تھا۔ رینوکا، سیما اور انجنا بائی پر الزام تھا کہ انھوں نے 42 بچوں کو اغوا کیا اور ان میں سے اکثر کو انھوں نے ہی مارا۔ زیادہ تر بچوں کو زمین سے ٹکرانے، بجلی کے کھمبے سے سر ٹکرا کر، گلا دبانے اور ناک اور منھ دبانے سمیت وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے قتل کیا گیا۔

بھارتی اخبار سے گفتگور میں پولیس افسر سوہاس ناتھ گوڑا نے کہا کہ ’متعدد اضلاع کی پولیس ٹیموں نے قتل کے سلسلے میں مل کر کام کرنا شروع کیا۔ کریمنل انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے تفتیش کی اور کولہا پور اسیشن کورٹ میں مقدمہ درج کیا۔

رینوکا کے شوہر، کرن شندے بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ عدالت کو کرن شندے نے وحشیانہ قتل کے بارے میں تمام تفصیلات بتائیں۔ انھوں نے عدالت کے سامنے جو حقائق رکھے اور ان تین خواتین سے متعلق جن حقائق سے پردہ اُٹھایا اُنھوں نے ریاست مہاراشٹرا کو ہلا کر رکھ دیا۔

ان سیریل کلر بہنوں کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ تو کوئی مقدمہ کرنے والا تھا اور نہ ہی ان بچوں کے والدین کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو انجام تک پہنچا سکتے۔

ظلم و بربریت کی انتہا کرنے والی یہ بہنیں اب پونے کی یرواڈا جیل میں اپنی باقی زندگی گزار رہی ہیں۔ رینوکا کی عمر 49 اور سیما کی عمر 44 سال ہے۔ سرکاری فائلوں کی سست رفتاری سے لے کر ’ریڈ ٹیپ‘ تک کے طریقہ کار تک، کیس میں سست فیصلے کی مختلف وجوہات بتائی گئی تھیں تاہم وجہ کوئی بھی ہو انھیں سزائے موت نہ مل سکی۔



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/AaUEg2u

No comments:

Post a Comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();