زوسیا جسے 400 سال پہلے لوگ ’ویمپائر‘ سمجھتے تھے، اسکا چہرہ کیسا تھا؟ - Pakiatani Media News

Breaking

Thursday 31 October 2024

زوسیا جسے 400 سال پہلے لوگ ’ویمپائر‘ سمجھتے تھے، اسکا چہرہ کیسا تھا؟

سائنسدانوں نے ڈی این اے، تھری ڈی پرنٹنگ، ماڈلنگ کلے کی مدد سے زوسیا نامی 400 سال پرانی خاتون کا چہرہ بنا ڈالا، جسے لوگ ویمپائر سمجھتے تھے۔

زوسیا جس کی مافوق الفطرت کہانیاں 400 سال پرانی ہیں سائنسدانوں نے اس کے چہرے کو دوبارہ سے بنانے کے لیے کافی محنت کی، زوسیا کو عجیب وغریب طریقے سے دفن کیا گیا تھا، دفن کرتے وقت اس کے پاؤں میں بیڑیاں اور اس کی گردن میں لوہے کی درانتی ڈال دی گئی تھی۔

اس ویمپائر لڑکی زوسیا کو اس طرح دفن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ کبھی بھی اس دنیا میں واپس نہ آسکے، اسے شمالی پولینڈ کے شہر پائین میں ایک نامعلوم قبر میں دفنایا گیا تھا۔

زوسیا کا چہرہ بنانے والے سوئیڈش ماہر نیلسن کا کہنا ہے کہ ایک چہرے کو مردے سے زندہ ہوتے دیکھنا کافی جذباتی ہوتا ہے، خاص طور پر جب آپ کو اس نوجوان لڑکی کی کہانی بھی معلوم ہو۔

انھوں نے کہ وہ زوسیا کو ایک انسان کے طور پر واپس لانا چاہتے ہیں، نہ کہ اس عفریت کی طرح جس کے طور پر اسے برسوں پہلے دفنا گیا تھا۔

سویڈش ماہر آسکر نیلسن نے کہا کہ یہ ایک طرح سے واقعی ستم ظریفی ہے، لوگوں نے اسے دفنایا اور اسے مرنے کے بعد واپس آنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن ہم نے اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

ٹورن کی نکولس کوپرنیکس یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے 2022 میں زوسیا کے حوالے سے نشانات پائے تھے۔ 18-20 سال کی عمر میں زوسیا کی موت ہوئی تھی۔

یہ نوجوان خاتون ان درجنوں خواتین میں سے ایک تھی جس کے بارے میں اس کے پڑوسیوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ویمپائر یعنی خوں آشام خاتون ہے۔

زوسیا کی کھوپڑی کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ وہ بے ہوشی اور شدید سر درد کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے ممکنہ مسائل میں مبتلا تھی۔



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/hNPWRd8

No comments:

Post a Comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();